مسلم مخالف تقریریں اور دھرم سنسد جیسے پروگراموں پر لگے پابندی, جمعیۃ علماء ہند پہنچی سپریم کورٹ

یہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کے آئین، قانون، اتحاد اور سالمیت کا معاملہ ہے: مولانا ارشد مدنی

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی

نئی دہلی10/جنوری 2022 : پچھلے کچھ عرصہ سے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں اور بیانات میں اچانک شدت آگئی ہے، یہاں تک کہ حال ہی میں ہریدوار اور دہلی میں حکومت کی ناک کے نیجے منعقدہونے والے پروگراموں میں نہ صرف کھل کر اشتعال انگیزیاں کی گئیں، بلکہ ہندو راشٹر کے قیام کے لئے اکثریت کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسانے کی دانستہ خطرناک سازش بھی کی گئی، مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ ان دونوں معاملوں میں اب تک کسی طرح کی کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوئی ہے، ایسے میں مجبور ہوکر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس معاملہ میں بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے امید افزاء بات یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی اس پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کرلیا گیا ہے، یہ پٹیشن گزشتہ 4 جنوری کو آئین کی دفعہ 32 کے تحت داخل کی گئی ہے، جس کا ڈائری نمبر 691/2022 ہے، اس پورے معاملہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ریاست اور مرکز کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا اپنے فرائض منصبی کے ادا نہ کرنے سے پورے ملک میں انتہائی مایوس کن صورت حال پیدا ہوگئی ہے، دھرم سنسد اور دوسری جگہوں پر ہونے والی شر انگیز تقریروں پر مرکز اور صوبائی حکومتوں کی خاموشی نے صورت حال کی سنگینی میں اور اضافہ کردیا ہے، یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسے جمہوری ملک میں جس کے آئین میں ہر شہری کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کی ہدایت کی گئی ہے، کچھ لوگ کھلے عام ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نہ صرف شرانگیزی کرتے ہیں بلکہ اکثریت کو اس کے قتل عام کے لئے اکسانے کی سازش بھی کی جاتی ہے، مگر ایسے لوگوں کے خلاف معمولی دفعات کے تحت بھی کوئی کاروائی نہیں ہوتی، آج عام چرچا ہے کہ گورنمنٹ اور سیاسی لوگوں کی خاموشی یہ بتارہی ہے کہ یہ جرم کے اندر شریک ہیں، اور شدت پسند لوگوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پولس ایف آئی آر کے بعد بھی ان لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتی ہے، اسی لئے شرپسند لوگ بے خوف وخطر، دہشت گردانہ عمل کو انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ہماری سرپرستی کرنے والے اقتدار میں موجود ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ کشمیر سے کنیا کماری تک لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں، لیکن ہم موجودہ حالات سے مایوس ہر گز نہیں ہیں اگر عزم مضبوط ہو تو مایوسی کے انہی اندھیروں میں سے امید کی نئی شمع روشن ہوسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ زندہ قومیں حالات کے رحم وکرم پہ نہیں رہتی ہیں بلکہ اپنے کردار و عمل سے حالات کا رخ پھیر دیا کرتی ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ جدوجہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں و مہاتما گاندھی اور نہرو وغیرہ نے جس ہندوستان کا خواب دیکھاتھا وہ یہ ہندوستان ہرگز نہیں ہوسکتا، ہمارے بزرگوں و مہاتما گاندھی اور نہرو وغیرہ نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھاتھا جس میں بسنے والے تمام لوگ نسل برادری اور مذہب سے اوپر اٹھ کر امن وآتشی کے ساتھ رہ سکیں مگر ان حالات میں امید افزاء بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے انصاف پسند لوگ چپ نہیں ہے، وہ جو کرسکتے ہیں کررہے ہیں، مسلح افواج کے سابق سربراہان، سرکردہ بیوروکریٹ، سپریم کورٹ کے ممتاز وکلاء اور دوسری سینکڑوں اہم شخصیات اس حوالہ سے صدر جمہوریہ ہند، چیف جسٹس آف انڈیا کو خطوط لکھ چکی ہیں مگر اس کے باوجود حکومت اور اس کی ایجنسیاں دونوں خاموش ہیں، دوسری طرف کسی طرح کی کاروائی نہیں ہونے سے شرپسند بے خوف وخطر حسب معمول شرانگیزی اور شدت پسندانہ عمل میں مصروف ہیں، انہیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ قانون کے ہاتھ ان کی گردنوں تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ ان کی سرپرستی کرنے والے اقتدار میں موجود ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں امید ہے کہ دوسرے معاملوں کی طرح اس معاملہ میں بھی ہمیں انصاف ملے گا کیونکہ یہ محض مسلمانوں کا نہیں ملک کے آئین قانون اتحاد اور سالمیت کا معاملہ ہے، پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ جو لوگ ملک میں اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے ایسا کررہے ہیں، ان کے خلاف سخت قوانین کے تحت کاروائی ہونی چاہئے، یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مآب لنچنگ کی طرز پر گائیڈ لائن بھی جاری کی جائے جس کے تحت ہر ضلع میں نوڈل افسر کی تعیناتی ہو , جو ایسے ہر پروگرام کی نشاندہی کرے جس میں نفرت انگیز تقریریں کی جائے، اور فوری طور.پر پروگرام کے منتظمین اور اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کا التزام بھی ہو، پٹیشن میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ عدالت تمام ریاستوں کے ڈائریکٹر جنرل آف پولس، لاء اینڈ آرڈ کے ذمہ داروں دیگر افسران کو ہدایت جاری کرے کہ وہ نفرت آمیز بیان یا تقریرکی شکایت ملنے کے چھ گھنٹے کے اندر مقدمہ درج کرکے ملزمین کی گرفتاری کو یقینی بنائے، اور وقت پر ملزمین کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں داخل کی جائے، مقدمہ کی جلد ازجلد سماعت کے لئے پولس عدلیہ کا تعاون کرے ساتھ ہی ایسے مقدمات کی تیز سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے، یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کی ضمانت مسترد کئے جانے کے لئے گائیڈ لائن تیار کرے جو مسلسل اس طرح کے بیانات دیتے ہیں جس سے ملک میں امن وامان میں نہ صرف خلل پڑتا ہے بلکہ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف اکثریت کو اکسانے کی سازش بھی کی جاتی ہے، پٹیشن میں ایسے 30 واقعات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، قابل ذکر ہے کہ اس پٹیشن میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امدادی کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں، پٹیشن کو سینئر ایڈوکیٹ نتیاراما کرشنن کے قانونی مشورہ سے ایڈوکیٹ صارم نوید نے تیار کیا ہے۔ آج چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے ہری دوار دھرم سنسد نفرت آمیز تقاریر معاملہ میں داخل پٹیشن پر سماعت کے لئے راضی ہونے کا صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے خیر مقدم کیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *