رسنگھانند کی ’زبان‘ سے خود ہندو خواتین محفوظ نہیں ہردوار کے دھرم سنسد کے بعد ’سادھو‘ بداخلاقی اور ناشائستگی کی پستیوں کی طرف گامزن۔نفرت پھیلانے کیلئے حکومتوں کی ’’کھلی چھوٹ‘‘

ہردوار: اتراکھنڈ کی داسنا دیوی مندر کے تیزی سے بدنام ہونے والے سادھو یاتی نرسنگھانند نے بداخلاقی ، ناشائستگی اور خواتین بالخصوص مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض تبصرے کرنے کی اپنی روش جاری رکھتے ہوئے اب خود ہندو برادری کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ ہردوار میں ہی جہاں گزشتہ ماہ نرسنگھانند کی جانب سے منعقدہ دھرم سنسد نے ملک بھر کو گہری تشویش میں مبتلا کیا کیونکہ وہاں سے مقررین نے مسلمانوںکی نسل کشی کی اپیل کی تاکہ ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنایا جاسکے ، صرف خواتین کیلئے ایک ایونٹ منعقد کیا گیا۔ نرسنگھانند نے اپنی گندی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ہندو عورتیں جو صرف ایک بچہ کی ماں بنتی ہیں، ناگن کے مترادف ہیں۔ ’’وہ ماں باپ جو صرف ایک بچہ کو جنم دیتے ہیں، عجیب مخلوق کی مانند ہیں اور سانپوں کے مترادف ہیں۔ صرف ایک بیٹے کو پیدا کرنے والی عورت کو عورت کہنے سے زیادہ ناگن کہنا بہتر ہے۔ وہ خود اپنے بچہ کی موت کیلئے ذمہ دار رہے گی‘‘۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ نرسنگھانند نے خواتین کے خلاف غلط زبان استعمال کی ہے۔ وہ وقفہ وقفہ سے خواتین کو مختلف چیزوں یا مخلوقات سے تشبیہ دیتا آیا ہے اور اس معاملہ میں برسر اقتدار بی جے پی کی قائدین کو بھی نہیں بخشا۔ افسوس اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ حالیہ عرصہ میں اس قسم کی نفرت انگیز تقریریں کافی بڑھ گئی ہیں لیکن حکومتیں خاموش ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نفرت انگیز مہم ان ہی کی ایماء پر چلائی جارہی ہے۔ اس لئے نرسنگھا نند جیسے لوگوں کو ’’کھلی چھوٹ‘‘ دی گئی ہے۔ دو روز بعد جبکہ بدنام زمانہ ’’بلی بائی آکشن‘‘ نے کئی مسلم خواتین کو ذہنی کرب میں مبتلا کیا، نرسنگھانند نے پھر ایک بعد مسلم خواتین کے خلاف نہایت قابل اعتراض تنازعہ چھیڑ دیا ہے۔ ایک دیگر ویڈیو میں جو ٹوئیٹر پر وائرل ہے، یاتی کو یہ کہتے دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندی فلم انڈسٹری کے علاوہ مسلمانوں نے بی جے پی اور ہندوتوا گروپ آر ایس ایس کے بشمول تمام شعبوں میں داخلہ حاصل کیا ہے۔ مسلم خواتین کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ خواتین اپنی برادری کی بڑی طاقت ہیں کیونکہ ان کو مذہب کی طاقت کو پھیلانے کیلئے جنسی شئے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ’’سادھو‘‘ نے مسلم خواتین کے تعلق سے ایسی ایسی گندی باتیں کہی ہے کہ ان کو ضبط تحریر لانا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ مسلم خواتین کے بارے میں اناپ شناپ بکنے کے بعد یاتی نے کہا کہ ’’اسی لئے میں ہندوؤں میں نوجوانوں کو سادھو بننے کا مشورہ دیتا ہے ۔ اگر کوئی عام ہندو ایک شادی کرتا ہے تو مذہبی ہندو کو کم از کم دو شادیاں کرنا چاہئے ۔ ایسی صورت میں وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرسکیں گے اور وشودھا (خالص ) ڈی این اے دور دور تک پھیل سکے گا‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *