نگینہ کی محفوظ سیٹ اور رائے دہندگان


سیاستدانوں کی سازش کا نتیجہ کہے یا نگینہ اسمبلی کے عوام کی ناقص حکمت عملی کہ جس کے نتیجہ میںہزاروں افراد اپنے پسندیدہ شخص کو ووٹ دیے بغیر ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوئے جارہے ہیں ۔ میرا مطلب نگینہ اسمبلی کاایس سی طبقہ کے لئے محفوظ کئے جانے اور اس کی مدت کار سے ہے ۔ نگینہ میں جنرل امیدوار کے لئے 1973 میں آخری مرتبہ ووٹ ڈالے گئے تھے تب کانگریسی امیدوار عزیزالرحمن کامیاب ہوئے تھے ۔ یہ ضمنی انتخاب تھا جو حافظ محمد ابراہیم کے چھوٹے بیٹے عتیق الرحمن کی ناگہانی سیاسی موت کے سبب کرایا گیا تھا ۔یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حافظ محمد ابراہیم قومی سیاست کا بڑا نام تھا اور نگینہ میں ان کو یا ان کے فرزند کو شکست دینا کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے محض دیوانہ کا خواب ہی تھا جب کہ محمد علی جناح کی تدابیر بھی 1937 میںحافظ محمد ابراہیم کو شکست سے دوچار کرنے میں ناکام رہ چکی تھیں۔ عزیز الرحمن کی فتح کے بعد سیاستدانوں نے نگینہ اسمبلی حلقہ کو شیڈول کاسٹ طبقہ کے لئے محفوظ کردیا یہی وہ سازش اور چال تھی کہ جس سے نگینہ کی عوام باہر نہ آسکی ۔ 1974میں یہاں سے گنگا دئی ایس سی امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئیں۔


یہ کانگریس کی امیدوار تھیں۔ 1974سے 2022 تک 48برس کی طویل مدت میں نگینہ اسمبلی سے کتنے ہی امیدوار کامیاب ہوئے۔فاتح امیدواران کی قسمت کا سورج متواتر چمکتا رہا لیکن مسلم سمیت جنرل برادری کے ہندوئوں کی سیاست کو گہن لگتا گیا۔ قاضی ارشد مسعود، شیخ خلیل الرحمن مرحوم ، پرنسپل عشرت جاوید مرحوم،حاجی خورشید قریشی ، چیرمین پربھات چند گپتا، چودھری دگو جہ سنگھ ، شیخ ذوالفقار عالم ، مفتی مونس حسین ، ٹھاکر پون کمار ،شیخ قمرالدین وغیرہ سیاسی گرفت اور وسائل ہونے کے باوجود ممبر اسمبلی کہلانے کے اعزازسے محروم رہے اور بیشتر اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ 1974میں نگینہ کے ساتھ ہی شیڈول کاسٹ طبقہ کے لئے محفوظ دوسری نشست نجیب آباد تھی۔ 2008میں د وبارہ حلقہ بندی ہوئی ۔ ضلع میں نہٹور اسمبلی کے نام سے نئی نشست وجود میں آئی ۔ ضلع کی نگینہ ، نہٹور ، دھامپور، نجیب آباد اورنورپور اسمبلی حلقہ کو ملاکر نگینہ کے نام سے نئی پارلیمانی نشست بھی بنائی گئی ۔ آبادی کے تناسب سے ضلع کی دو اسمبلی نشستوں کو ایس سی طبقہ کے لئے محفوظ کیا جانا تھا ۔ حلقہ بندی کمیشن کا قہر اس مرتبہ بھی نگینہ کی عوام پر نازل ہوا نہٹور اسمبلی حلقہ کے ساتھ نگینہ کو پھر شیڈول کاسٹ کے لئے محفوظ کردیا گیا۔ستم کی انتہا تو دیکھئے کہ جس قانون گو سرکل ( کرتپور) کو 1974 میں علیحدہ کر نگینہ کومحفوظ کیا گیا تھا 2008میںاسی قانون گو سرکل (کرتپور) کو جوڑ کر نگینہ اسمبلی حلقہ کو محفوظ کردیا گیا۔ نتیجہ کے طور پرنصف صدی گزرجانے کے بعد بھی نگینہ کی ایک پوری نسل اقتدار اعلیٰ تک پہنچنے سے محروم ہوگئی ۔ وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ایک طبقہ مخصوص کو سیاسی عمل داری سے محروم کئے جانے کی حمایت کسی طور نہیں کی جا سکتی ۔ 14 فروری کو رائے دہندگان حق رائے دہی کا استعمال کریں گے امیدواران کی حمایت و مخالفت بھی کی جائے گی لیکن نگینہ کے ڈھائی لاکھ سے زائد رائے دہندگان کی شکایت الیکشن ایشو ہوگا اس کا جواب 14فروری کو ہونے جارہے الیکشن کو دیکھنے کے بعد ہی لکھا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *