مسلم سائنسدان اک نظر میں پانچ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔
01- یعقوب الکندی
Abu Yusuf Yaqoob Al kindi
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماھر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اور تماشبین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
02- ابن رشد
Ibn Rushd (in Latin “Averroes”)
*یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہور عالم ابن رشد کو بے دین قرار دے کر اس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اور نمازیوں کو اس کے منہ پر تھوکنے کو کہا گیا۔ اس عظیم عالم نے اپنی زندگی کے آخری ایام ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیئے. *
03- ابن سینا
Ibn Sina (Avicenna)
جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراھی کا مرتکب اور مرتد قرار دیا گیا۔ مختلف مسلم حکمران اس کے تعاقب میں رہے اور وہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی یعنی “القانون فی الطب” حالت روپوشی میں ہی لکھی۔
04- ذکریا الرازی
Abū Bakr Muḥammad ibn Zakariyyāʾ al-Rāzī ( in Latin “Rhazes”)
عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح بار بار کتابیں سر پر مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اور اس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔
05- جابر ابن حیان
Abu Musa Jabir ibn Ḥayyan (in Latin “Geber”)
جسے مغربی دنیا کے لوگ جدید کیمیاء کا فادر کہتے ھیں جس نے کیمیاء، طب، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکیمیاء اور کتاب السابعین صرف مغرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے۔ “جابر بن حیان سے حاکم وقت کا انتقامی سلوک:” حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ھوئی شہرت کھٹکنے لگی چنانچہ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔ جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ھوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیئے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔
مسلم سائنس دانوں کا جو حشر خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔