عشرۂ اُردو میں’ اُردو کارواں کا اقبالیات پر معیاری مذاکرہ

ممبئی: عشرہ ء اردو کے اقبالیات پر مبنی اہم پروگرام کے آغاز میں شبانہ خان( جنرل سیکرٹری اردو کارواں) نےکہا کہ “علامہ اقبال کا شمار جید شعرائے کرام میں ہوتا ہے علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے سے سے گفتار و کردار اور اخلاق کا درس دیا علامہ اقبال ایک عبقری شخصیت تھے اور انکی شخصیت کے بہت سارے پہلو جن کے تعلق سے کچھ گفتگو مزید ہونا چاہیے, یہی وجہ ہے یہ مذاکرہ منعقد کیا گیا ہے ، تاکہ علامہ اقبال کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر مفصل روشنی ڈالی جا

سکے.


فرید احمد خان (صدر اردو کارواں) نے مہمان مقررین ڈاکٹر علی احمد فاطمی (پروفیسر الہ آباد یونیورسٹی) مرزا جہاں زیب ب جموں و کشمیر(اعزازی رکن دبستان اقبال) ، اور نعیم جاوید،ماہر اقبالیات کا مفصل تعارف پیش کرتے ہوے کہا “اردو ادب میں علامہ اقبال، ایک عظیم شاعر اور فلسفی کی حیثیت رکھتے ہیں ،علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے قوم کی اصلاح کا کام لیا، نوجوانوں کو قوم کے تئیں ذمداریوں کا احساس اپنی شاعری کے ذریعے کروایا، کون ایسا ہے جس نے علامہ کی شخصیت اور انکے کلام سے کچھ حاصل نہ کیا ہو. یہ صدی کا وہ شاعر ہے جسکی نظموں میں بچوں کی معصوم مسکراہٹ ہے تو شکوہ جواب شکوہ میں، میں فکر، اور آگے بڑھیں تو ضرب کلیم، قومی یکجہتی کی بات کریں تو گوتم بدھ، نانک اور رام اور نیا شوالہ پر لکھی گیں نظمیں.. اردو کارواں علامہ کی شخصیت پر مذاکرہ کا انعقاد کرکے خوشی محسوس کر رہا ہے”
پروفیسر علی احمد فاطمی نے علامہ اقبال کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” دنیا کے جتنے بھی عظیم شعرا ہیں ہر ایک کی اسی فکر ہے اقبال کے ہاں اسلامی فلاسفی ملتی ہے لیکن ان کو صرف مسلمانوں کا شاعر سمجھ لینا غلط ہے. انہوں نے کہا کہ اقبال بحیثیت شاعر کے حیات و کائنات کے پیچ در پیچ مسائل سے فکر مند رہے انہوں نے مزید کہا کہ اقبال زندگی کی تلاش کے لئے عشق ہی کو رہبر مانتے ہیں ان کے یہاں حیات اور کائنات کا مختلف ذرائع موجود ہیں اقبال کے مخاطب صرف مسلمان ہی ہیں یہ کہنا صحیح بات نہیں ہے وہ ہر ایک کو دعوت فکر دیتے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس پوری کائنات کا مرکز و محور انسان ہے اس لیے ان کی شاعری کے مخاطب بھی انسان ہیں صرف مسلمان نہیں ہیں اور دنیا کی بے ثباتی بیقراری اجتہادی کیفیت ان کی شاعری کی بنیاد ہے. انہوں نے ضرب کلیم شکوہ جواب شکوہ اور دیگر نظموں کا بھی ذکر کیا انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کے ان الفاظ کو دہرایا جو انہوں نے علامہ اقبال کی وفات پر کہا تھا کہ آج آفاقی شاعر ہمارے درمیان سے اٹھ گیا.
نعیم جاوید نے اقبال اور اظہارِ فن کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” اظہار کا مطلب ہے بولنے کی ہمت جمع کرنا ہے۔اور جرات اظہار، حسن اظہار کا لہجہ احتیاط مانگتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اگر دل کی دل سے بات کریں تو دل نور کا مرکز ہوتا ہے دلوں پر دستک دینے والا، بات، گفتار کا فن کردار ہر منحصر ہوتا ہے اظہار لباس اور زبان کا بیان ہے سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات ہوتا ہے حق کے لئے اظہار کی توانائی کی ضرورت ہے بازار کی بولی ٹھولی سے پرہیز کرنا چاہیے الفاظ معنی کی بڑی جنگ میں ایک راہ نکل آتی ہے اقبال کے ایک شعر میں ہزار معنی پنہاں ہے. مانگے تانگے کی تہذیب سے اپنا پیٹ نہیں بھرنا چاہیے بلکہ اپنی تہذیب، زبان اور تاریخ و ثقافت پر ناز ہونا چاہیے یہی اقبال کا پیغام ہے.
مرزا جہانزیب بیگ نے اقبال اور تصوف اس موضوع پر کہا کہ” اقبال کو سمجھنا آسان کام نہیں ہے.انہوں نے اردو کارواں کے کام کو بے نظیر قرار دیا انہوں نے کہا کہ اقبال کو ہر کسی نے اپنے نظرئیے کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی، علامہ کے یہاں تصوف کا رنگ ملتا ہے،اور اصل عشق بے لوث جذبات کی طرف متوجہ کرتا ہے، خدا کے سامنے اپنی ہستی کو مٹانے کا نام عشق ہے۔ عشق انسان کو اسکی حدود تک لے کر جاتا ہے اور اللہ نے اپنے بندوں کو عشق کے مرحلے میں آزمایا ہے جیسے حضرت موسی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انہوں نے اپنے بیان میں ذکر کیا
علامہ نے عقل کی نفی نہیں کی ہے انہوں نے عقل کو خرد قرار دیا ہے وہ منزل پر یقین نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ تو منزل نہ کر قبول قبول، تصوف کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “تصوف نام پر کے عالم تو بہت ملتے ہیں مگر عمل کرنے والے عامل نہیں ملتے اور عشق کسی روایتی عقیدت کا پابند نہیں ہوتا انہوں نے مزید کہا کہ عشق حقیقی اور دنیا سے بیزار ہونے کا نام تصوف ہے، تصوف کو نیتوں کی کیمیاگری کا نام ہے۔
فرید خان نے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ معزز مقررین کا اقبال کے اشعار کا انتخاب لاجواب رہا، فارسی اشعار کی آمیزش نے اشعار سننے کا لطف دوبالا کر دیا، تصوف، عشق کردار ،گفتار پر روشنی ڈالنے والا یہ مذاکرہ بہت عمدہ اور بہت معلومات سے پر تھا۔
محترمہ خواجہ کوثر حیات نے اپنے تاثرات میں کہا کہ بہترین انداز میں تمام مقررین نے اپنے مضامین کا احاطہ کیا انہوں نے پروفیسر علی فاطمی کی اردو سن کر کہا کہ ایسا لگا کہ کلاسیکل اردو بولنے والے آج بھی موجود ہیں ۔نعیم جاوید کے تعلق سے کہا کہ ان کےاسلوب کو سن کر محسوس ہوا کہ اردو زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت یہی ہے ۔ مرزا جہاں زیب کے تعلق سے کہا کہ ان کی وجہ سے نئی نسل بھی اس پروگرام میں شامل رہیں اور انہوں نے تصوف پر بہت گہری باتیں کہیں، ان مقالوں کو سن کر ایسا محسوس ہوا کہ دس یا بیس کتابوں کا ایک ساتھ مطالعہ کرلیا ہو.
راشدہ کوثر رکن اردو کارواں اورنگ آباد نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام بہت کامیاب رہا
نفیسہ شیخ رابطہ کار اردو کارواں نے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اورمبارکباد دی اور انہوں نے کہا کہ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ مہمانوں کو سننے کا موقع ملا اقبال کی شاعری کے ہر گوشے سے انہوں نے متعارف کروایا اور اس پروگرام سے طلبہ یقین طور پر استفادہ اٹھا سکتے ہیں یہ پروگرام یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔
رسم شکریہ کے فرائض بن ناصر نے ادا کرتے ہوے کہا کہ اتنے بہترین مقالہ سننے کے بعد اقبال کی زندگی کے ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو بہت چابکدستی سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئ وہ تمام مقررین کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔
اس آن لائن پروگرام میں علامہ اقبال کے پوتے محترم اقبال صلاح الدین نے بھی شرکت فرمائی اور پروگرام کے بعد اپنے صوتی پیغام میں پروگرام پر پسندیدگی کا بھی اظہار کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *